08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -بدلہ قسط11
بدلہ
از مشتاق احمد
قسط نمبر11
ہادی سلیکٹ ہو چکا تھا اور اسکی ٹریننگ بھی وہیں تھی جہاں ناظم اور نور تھے۔
رینا خوش تھی اب کیوں کے اب جلد وقت آنے والا تھا جس کا وہ کب سے انتظار کر رہی تھی۔
ناظم اور نور رهتے جدا تھے پر دن ساتھ گزرتا تھا انکا۔
ناظم اسکا بہت خیال رکھتا تھا۔
اب انکو پتہ چلا تھا کہ نیو ٹرینر بھی پہنچ گئے ہیں وہ آپس میں مل رہے تھے۔
چونکہ ٹریننگ اکٹھا ہو رہی تھی تو سب نے دھیان چھوڑ دیا تھا ۔
شرم کا بس فاصلہ رکھا جاتا تھا۔
آج مل رہے تھے سب ۔
ناظم اور نور اکٹھا کھڑے تھے۔
سب سے وہ ایسے مل رہے تھے کہ ناظم ہاتھ ملا رہا تھا اور نور سر کو جنبش دے کر ہیلو کر رہی تھی۔
ہادی نےدیکھا بھی یہ سب پر جب آگے ہوا تو نور کے بھی آگے ہاتھ کر دیا۔
جس کا جواب نور نے سر سے دیا پر ہاتھ آگے نہیں کیا۔
سو ہادی کو ہاتھ پیچھے کرنا پڑا پر غصہ تھا دل میں اور چہرہ پر مسکراہٹ۔
تمکو تو میں دیکھ لوں گا نور صاحبہ ۔
سب اپنی جگہوں پر پہنچ چکے تھے ٹریننگ کے لئے۔
یوں آج کا دن بھی ختم ہوا۔
شام کو ناظم اور نور مل کر کھانا کھا رہے تھے۔
ہادی نے دیکھا تو کسی سے ان کے بارے میں پوچھا۔ اوہ تو یہ بات ہے۔
کچھ دوست بیٹھے ہادی کے پاس یار ایسے لگتا ہے کہ نور تمہاری رشتہ دار ہے تم دونوں کی صورت کتنی ملتی ہے۔
یہی بات ناظم بھی فاصلہ پر بیٹھا ہادی کو دیکھ کر سوچ رہا تھا۔
پھر سر جھٹک دیا۔
چہرے تو ملتے رهتے ہیں۔
دوسری طرف ہادی نے کہا۔ میں اکلوتا ہوں میری کوئی بہن ہے ہی نہیں۔
بہن نہیں پر نخرہ دیکھو اسکا یہ تو توڑ کر رہوں گا دل میں سوچا۔
یوں دن گزرتے رہے۔
ایک دن ہادی پر شیطان غالب آ گیا۔
اسکی آنکھیں چمک رہی تھیں۔
ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا۔
نور کو پیاس لگی کیا کروں پانی نہیں رکھا کسی نے یا پی گیں سب۔
اب باہر جانا پڑے گا۔
نور جگ لے کر باہر نکلی۔
لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان میں کیچن آتا تھا۔
نور کو ایسا لگا کسی کی گھٹی گھٹی آواز آ رہی ہے۔ ٹرینر تھی ڈر تو کب کا ختم ہو چکا تھا اس کے قدم آواز کی طرف بڑھنے لگے۔
اس نے جو سین دیکھا اس سے تو نور کا جسم کانپ اٹھا اور پسینہ سے بھیگ گئی۔
چیخ رہی تھی بے اختیار پر زور سے منہ بند کر دیا اپنا۔
ہادی ایک لڑکے کی گردن پر جھکا خون پی رہا تھا پھر چھری سے اسکا بازو کاٹا اور کھانے لگا۔
نور منہ پر ہاتھ رکھتی پیچھے ہونے لگی۔ اور بھاگ پڑی اپنی جگہ کی طرف۔
دروازہ بند کیا کانپتے ہوے آس پاس دیکھ رہی تھی۔ اسکو ایسا لگ رہا تھا ہادی اس کے پیچھے آ رہا ہے۔
نور نے پہلی دفع دیکھا تھا ایسا۔
کیا وہ انسان ہے ۔
نہیں وہ انسان نہیں وہ جانور ہے۔
وہ سبکو مار ڈالے گا۔
مجہے کچھ کرنا ہوگا۔
صبح سب نے دیکھ لیا تھا لڑکے اور اسکی حالت کو
۔وہ لڑکا ہادی کا روم میٹ تھا۔
سب جانور کا نام لے رہے تھے۔
دوسری طرف نور پوری رات نہیں سوئی صبح اسکو بخار تھا۔
ناظم پریشان تھا کہ رات کو تو ٹھیک تھی پھر اچانک کیا ہوا۔
وہ ٹریننگ پر بھی نہیں گئی اسکی حالت ٹھیک نہیں تھی۔
ناظم پریشان تھا کہ وہ گیا تو نور تنہا رہ جائے گی۔آپ کو سر بلا رہے ہیں۔
ایک لڑکا آ کے ناظم سے بولا۔
اوکے آ رہا ہوں۔
جیسے ناظم اٹھنے لگا نور نے کانپتے ہوے اسکا بازو پکڑ لیا۔
مجہے چھوڑ کر مت جاؤ۔
نور سر بلا رہے ہیں میرا جانا لازمی ہے ناظم بیچارگی سے بولا۔
تم ایسا کرو ڈور اندر سے بند کر لو۔
ڈرتے ھوے نور بولی نہیں میں آپ کے ساتھ جاؤں گی۔ میں ٹھیک ہوں۔
نور زور سے ناظم کے ساتھ چل پڑی۔
سر نے اسکو کام سے منع کر دیا وہ ایک سائیڈ پر بیٹھی تھی سب کو دیکھ رہی تھی۔
بار بار رات کا منظر اسکی آنکھوں کے سامنے آ رہا تھا۔یکدم اسکو ہادی دکھا ۔
وہ کانپ گئی ہادی نور کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔نور کو ایسا لگ رہا تھا ہادی اسکی طرف آ رہا ہے نور نے چیخ ماری اور ناظم کی طرف دوڑ پڑی۔
ناظم وہ وہ۔ ۔۔۔
کیا ہوا نور ڈر کیوں رہی ہو۔
کچھ اس طرف آ گئے تھے۔
ان میں ہادی بھی تھا۔ جو نور کو گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
نور اس سے ڈرتی ناظم کے پیچھے چھپ گئی۔
ہادی کو کچھ کھٹکا۔
اسکا یکدم بیمار ہونا اور مجھ سے ڈرنا کہیں۔ ۔۔۔۔۔
یہ تو میرے لئے خطرہ بن سکتی ہے ہادی سوچ رہا تھا۔ اگر اسکو پتہ ہوتا تو یہ بتا دیتی اور کو نہیں ناظم کو تو لازمی۔
مجہے وہم ہوا ہے۔ جیسے سب بکھرے ہادی نے نور کو تنہا دیکھا فورا اسکی طرف لپکا ۔
ہیلو۔ ۔۔۔۔
کیا ہوا ہے آپ کو۔ہادی کی آنکھیں اس کے چہرے پر تھیں نور کانپنے لگی۔
مجہے ہاتھ مت لگانا۔ دور رہو مجھ سے۔
اب نور کے ڈر سے ہادی سمجھ گیا سب کچھ۔
سنو لڑکی اگر منہ کھولا تو انجام کا تو تمہیں پتہ ہے نہ اس لئے ش ش ۔۔۔۔چپ اور اسکو راز ہی رکھنا۔
میں تم دونوں کو کچھ نہیں کہوں گا۔ اوکے۔پھر فورا اٹھ کر گیا۔